In a bustling village, nestled among rolling green hills, lived a family known for their kindness and generosity. The head of the family, Ahmed, was a hardworking farmer, and his wife, Amina, was a devoted homemaker. They had two children, Ali and Fatima, who eagerly awaited the arrival of Eid-ul-Adha each year.
Eid-ul-Adha, also known as the Festival of Sacrifice, commemorates the willingness of Prophet Ibrahim (Abraham) to sacrifice his son Ismail (Ishmael) as an act of obedience to God. However, God provided a ram to sacrifice instead. This festival is a reminder of the importance of faith, obedience, and the spirit of sacrifice.
As Eid-ul-Adha approached, Ahmed and Amina started preparing for the celebration. They decided to buy a beautiful, healthy sheep for the sacrifice, as it was their tradition to share the meat with family, friends, and those in need. The children, Ali and Fatima, were excited to see the sheep, which they named “Barakah,” meaning blessing.
السلام علیکم
یہ واقعہ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندان کا ھے ۔
ایک باپ جو کہ قربانی نہیں کر پا رہا اس کی روداد سنیے۔
بابا…. بابا …. ہمیں بھی گوشت ملے گا نا ؟
میں نے کہا : ہاں ہاں کیوں نہیں بِالکُل ملے گا۔۔
لیکن بابا ….پچھلی عید پر تو کسی نے بھی ہمیں گوشت نہیں دیا تھا،
اب تو پورا سال ہو گیا ھےگوشت دیکھے ہوئے بھی۔۔۔
میں نے بڑے پیار سے سمجھایا :بیٹا اللہ نے ہمیں بھوکا تو نہیں رکھا،
میری پیاری بیٹی، ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیۓ۔۔
میری بیٹی پھر بولنے لگی ۔۔
ساتھ والے انکل قربانی کے لئے بڑا جانور لے کر آئے ہیں،
اور سامنے والے چاچا اقبال بھی تو بکرا لے کر آئےہیں،
میں دل میں سوچ رہا تھا کہ ہم غریبوں کے لیے ہی تو قربانی کا گوشت ہوتا ہے،
امیر لوگ تو سارا سال گوشت ہی کھاتے ہیں،
یہی سوچتے ہوئے میں عید کی نماز کیلے مسجد کی طرف چل پڑا ۔
وہاں بھی مولوی صاحب بیان فرما رہے ہیں
کہ قربانی میں غریب مسکین لوگوں کونہیں بھولنا چاہئے۔۔
ان کے بہت حقوق ہوتے ہیں۔۔۔۔
خیر میں بھی نماز ادا کر کےگھر پھنچ گیا،
کوئی گھنٹہ بھر انتظار کرنے کے بعد میری بیٹی بولی۔۔
بابا ابھی تک گوشت نہیں آیا ،
بڑی بہن رافیہ بولی ۔۔ چپ ہو جاٶ شازی بابا کو تنگ نہ کرو
میں چپ چاپ دونوں کی باتیں سنتا رہا اور نظرانداز کرتا رہا ۔۔
کافی دیر کے بعد بھی جب کہیں سے گوشت نہیں آیا تو شازیہ کی ماں بولی۔
سنیۓ میں نے تو پیاز ٹماٹر بھی کاٹ دیۓہیں۔ لیکن کہیں سے بھی گوشت نہیں آیا،
کہیں بھول تو نہیں گئے ہماری طرف گوشت بجھوانا۔۔۔۔
آپ خود جا کر مانگ لائیں،
میں نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا کہ یہ کیا عجیب بات کر رہی ہے ۔
میں نے نرمی سے کہا ۔۔
دیکھو شازیہ کی ماں۔۔۔۔ تمہیں تو پتہ ھے آج تک ہم نےکبھی کسی سے مانگانہیں ،
اللہ کوئی نہ کوئی سبب پیدا کرے گا۔۔
دوپہر گزرنے کے بعد شازیہ کے بار بار اصرار پر پہلے دوسری گلی میں ایک جاننے والے ڈاکٹر صاحب کے گھر گئے،
بیٹی کا مایوسی سے بھرا چہرہ برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔
اس لئیے مجبوراً اس کو ساتھ لے کر چل پڑا ۔۔۔
ڈاکٹر صاحب دروازے پر آئے تو میں بولا ۔۔
۔ ڈاکٹر صاحب میں آپ کاپڑوسی ہوں کیا قربانی کا گوشت مل سکتاہے؟
یہ سننا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کا رنگ لال پیلا ہونے لگا،
اور حقارت سے بولے پتہ نہیں کہاں کہاں سے آ جاتے ہیں گوشت مانگنے،
تڑاخ سے دروازہ بند کر دیا ۔۔
توہین کے احساس سے میری آنکھوں میں آنسو آ گۓ۔۔
لیکن بیٹی کا دل نہ دکھے ،آنسووں کو زبردستی پلکوں میں روکنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔
آخری امید اقبال چاچا ۔۔بو جھل قدموں سے چل پڑا ۔۔
ان کے سامنے بھی بیٹی کی خاطر گوشت کیلے دست سوال۔
اقبال چاچا نے گوشت کا سن کرعجیب سی نظروں سے دیکھا اور چلےگۓ۔
تھوڑی دیر بعد باھرآۓ تو شاپر دے کرجلدی سے اندر چلۓ گۓ۔
جیسے میں نے گوشت مانگ کر گناہ کر دیا ہو۔۔
گھر پہنچ کر دیکھا تو صرف ہڈیاں اور چربی ۔۔
خاموشی سے اٹھ کرکمرے میں چلے آیا اور بے آواز آنسو بہتے جارہے تھے ۔
بیوی آئی اور بولی کوئی بات نہیں۔۔ آپ غمگین نہ ہوں۔
میں چٹنی بنا لیتی ہوں۔
تھوڑی دیر بعد شازیہ کمرے میں آئی ۔
اور بولی بابا
ہمیں گوشت نہںں کھانا ۔ میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے ۔۔
لیکن میں سمجھ گیا کہ بیٹی باپ کو دلاسہ دے رہی ہے ۔۔
بس یہ سننا تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو گرنےلگے اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا
لیکن رونے والا میں اکیلا نہیں تھا۔۔
دونوں بچیاں اور بیوی بھی آنسو بہا رہی تھی
اتنے میں پڑوس والے اکرم کی آواز آئی ۔۔
جو سبزی کی ریڑھی لگاتا تھا۔۔
آزاد بھائی ،
دروازہ کھولو،
دروازہ کھولا۔۔
تو اکرم نے تین چار کلوگوشت کا شاپر پکڑا دیا،
اور بولا ،
گاٶں سے چھوٹا بھائی لایا ہے۔
اتنا ہم اکیلے نہیں کھا سکتے۔
یہ تم بھی کھا لینا
خوشی اورتشکر کے احساس سےآنکھوں میں آنسو آ گۓ ۔
اور اکرم کے لیۓ دل سے دعا نکلنے لگی۔
گوشت کھا کر ابھی فارغ ھوۓ ہی تھے کہ بہت زور کا طوفان آیا ۔
بارش شروع ہو گئ۔ اسکے ساتھ ہی بجلی چلی گئی۔
دوسرے دن بھی بجلی نہی آئی۔
پتہ کیا تو معلوم ہوا ٹرانسفارمر جل گیا۔
تیسرے دن میری بیٹی شازیہ اور میں باہر آئے تو دیکھا کہ،
اقبال چاچا اور ڈاکٹر صاحب بہت سا گوشت باہر پھینک رہے تھے ۔
جو بجلی نہ ہونےکی وجہ سے خراب ہو چکا تھا۔
اور اس پر کُتے جھپٹ رہے تھے۔
شازیہ بولی ،
بابا ۔
کیا کُتوں کے لیۓ قربانی کی تھی ؟
وہ شازیہ کا چہرہ دیکھتے رہ گئے ۔
اقبال چاچا اور ڈاکٹر صاحب نے یہ سُن کر گردن جھکا لی۔
یہ صِرف تحریر ھی نہیں،گذشتہ چند سالوں میں قربانی کے موقع پر آنکھوں دیکھا حال ہے۔
خدارا احساس کریں غریب اور مسکین لوگوں کا جو آپ کے آس پاس ہی رہتے ہیں ۔
*منقول*
Ahmed took great care in choosing the sheep, ensuring it was of the best quality, as this act was a significant aspect of their faith. The family brought Barakah home and nurtured it with love and care. Ali and Fatima were particularly fond of Barakah and spent hours feeding and playing with it.
On the day of Eid-ul-Adha, the village was filled with joy and excitement. The air was fragrant with the smell of delicious food being prepared, and everyone wore their finest clothes. After the special Eid prayers at the mosque, Ahmed gathered his family to perform the sacrifice.
With a heavy heart but unwavering faith, Ahmed explained to Ali and Fatima the significance of the sacrifice. He said, “This is a reminder of Prophet Ibrahim’s devotion and obedience to God. By sacrificing Barakah, we are expressing our gratitude and humility to Allah, and sharing the blessings we have been given.”
Ali and Fatima, though sad to see Barakah go, understood the importance of the sacrifice. They stood by their father, watching respectfully as he performed the ritual. After the sacrifice, the family divided the meat into three portions: one for themselves, one for their relatives and friends, and one for the less fortunate in their village.
As the day progressed, the family distributed the meat with smiles and warm wishes. The recipients were grateful, and Ahmed’s family felt a deep sense of fulfillment. The village community came together, sharing meals and stories, reinforcing the bonds of brotherhood and compassion.
That evening, as the family sat together, enjoying a meal made from the sacrificial meat, Ahmed looked at his children and said, “Eid-ul-Adha teaches us the value of sacrifice, generosity, and gratitude. It reminds us to be thankful for what we have and to share our blessings with others.”
Ali and Fatima nodded in understanding. They realized that the true essence of Eid-ul-Adha was not just in the act of sacrifice but in the spirit of giving and helping those in need. The festival left a lasting impression on them, teaching them valuable lessons of faith, compassion, and community.
From that day forward, Ali and Fatima eagerly awaited each Eid-ul-Adha, not just for the celebrations, but for the opportunity to embody the spirit of sacrifice and generosity that their parents had instilled in them. The story of Barakah, the sheep, became a cherished family memory, symbolizing the true meaning of Eid-ul-Adha.