Hajj: A Life-Changing Turning Point

By | June 23, 2024

Hajj, the annual Islamic pilgrimage to Mecca, is one of the Five Pillars of Islam and holds profound significance for Muslims around the world. This journey is not just a physical voyage but a deeply spiritual experience that has the power to transform lives. Here are some interesting facts about Hajj and how it serves as a life-changing turning point for millions of Muslims.

1. Historical Significance

Hajj has been performed for over 1,400 years, tracing its origins back to the Prophet Ibrahim (Abraham) and his family. The rituals of Hajj commemorate the trials and triumphs of Ibrahim, his wife Hagar, and their son Ismail. This historical continuity connects modern pilgrims with their spiritual ancestors, fostering a sense of unity and shared purpose.

2. The Fifth Pillar of Islam

As one of the Five Pillars of Islam, Hajj is obligatory for all Muslims who are physically and financially able to undertake the journey at least once in their lifetime. This pilgrimage is a demonstration of the solidarity of the Muslim people and their submission to Allah.

3. Unity and Equality

During Hajj, pilgrims wear simple white garments known as Ihram, which strip away distinctions of class, wealth, and status. This uniform dress code symbolizes the equality of all believers in the eyes of Allah, fostering a sense of brotherhood and sisterhood among the millions of participants.

In conclusion, Hajj is far more than a religious obligation; it is a transformative journey that touches the hearts and minds of millions of Muslims. This pilgrimage reinforces the values of unity, equality, and devotion, leaving an indelible mark on the lives of those who undertake it. For many, Hajj is truly a life-changing turning point.

حج؛ زندگی میں تبدیلی کا فیصلہ کن موڑ

بیت اﷲ کا حج کرنا لوگوں پر اﷲ کا حق ہے جو بھی وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو (القرآن)۔

اسلام چا ہتا ہے کہ حج مومن کی زندگی میں تبدیلی لا ئے، بلکہ ایک فیصلہ کن موڑ بن جائے،گناہوں کو ترک کرکے پاکیزہ زندگی گزارنے کا نقطۂ آغاز ہو۔ بند ہ اپنے رب سے شعوری طور پر ایک عہدوپیمان اور تجدید وفا کا عزم کرکے، صرف سلا ہوا لباس ہی نہ اتارے، بلکہ گناہ کا وہ لباس بھی اتار پھینکے جس میں وہ سر تا پا جکڑا ہوا ہے۔ صر ف دو سفید چادروں پر مشتمل اجلا لباس ہی نہ پہنے، بلکہ ایمان و ایقان اور کردار کو بھی اتنا ہی صاف اور پاکیزہ بنا دے۔ اپنے آپ کو، اپنی رو ح اور جسم کو بھی اسی فطرت سلیم کے سانچے میں ڈھا ل لے جس پر خالق نے اسے پہلے روز تخلیق فر مایا تھا۔

رسول کریم ؐ کا فرمان ہے:’’ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہو تا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔‘‘

یعنی حج کا لباس بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان اپنے آ پ کو گناہوں کی ان آلودگیوں سے دور کرکے جو معاشرے نے اس پر تھوپ دی ہیں، فطرت سے قریب تر، بلکہ اس کے عین مطابق ہوجائے۔

رسول عربیؐ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے خالص اﷲ کی رضا کے لیے حج کیا اور اس  دوران نہ تو شہوت رانی کی اور نہ ہی گنا ہ کیا تو وہ گنا ہوں سے ایسا پاک وصاف ہوکر لوٹے گا جیسے اپنی پیدایش کے دن گناہوں سے پا ک تھا۔‘‘

ایسے ہی کامل و مکمل حج کو تاج دار انبیاء ؐ نے ’حج مبرور‘ قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’حج مبرور کی جزا جنت کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔‘‘

اگر ہم نے حج سے یہ مقصد حاصل نہ کیا تو گویا ہم نے حج کی حقیقت کو سمجھا ہی نہیں، ایسی بے رخ عبادات صرف صورتاً عبادات ہوتی ہیں، حقیقتاً نہیں۔